کہ مکرمہ پہنچنے پر زائرین کو جو پہلی چیز محسوس ہوتی ہے، وہ کبوتروں کے جھنڈ ہیں جو شہر کے مختلف حصوں میں گشت کرتے نظر آتے ہیں۔
حرم مکی اور اس کے اطراف میں یہ پرندے زائرین کے لیے ایک دلکش منظر پیش کرتے ہیں، خاص طور پر جب معتمرین یا زائرین ان کبوتروں کو گندم یا دیگر دانہ ڈالتے ہیں۔ یہ عمل ان لوگوں کے لیے روحانی تسکین کا باعث ہوتا ہے، جو ثواب کی نیت سے ان پرندوں کی خدمت کرتے ہیں۔
کبوتروں کی اہمیت اور شکار کی حرمت:
حرم مکی کے کبوتروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ ان کے شکار یا انہیں نقصان پہنچانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
احرام کی حالت میں ہو یا بغیر احرام کے، ان پرندوں کو نقصان پہنچانے پر دم یا فدیہ واجب ہوتا ہے۔
اس تقدس کی بنیاد پر لوگ ان پرندوں کا خاص خیال رکھتے ہیں، اور انہیں محفوظ رکھتے ہیں تاکہ وہ حرم مکی کی پاکیزہ فضا میں آزادانہ اڑ سکیں۔
ذوالحجہ کے دنوں میں کبوتروں کی نقل مکانی:
ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دنوں میں کبوتروں کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور یہاں کچھ دن قیام کرنے کے بعد مہینے کے درمیان میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ نقل مکانی ایک قدیم روایت کا حصہ سمجھی جاتی ہے اور زائرین کے لیے ایک خاص روحانی تجربہ ہوتی ہے۔
کبوتروں کی نسل اور غار ثور کا واقعہ ان کبوتروں کے تقدس کی ایک روایت یہ ہے کہ ان کا تعلق ان پرندوں سے ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے غار ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنا لیے تھے۔
یہ واقعہ اسلام کے ابتدائی دور کی قربانیوں اور مشکلات کی یاد دلاتا ہے، اور ان پرندوں کی موجودگی کو اس واقعے سے منسوب کیا جاتا ہے۔
ابرہہ اور ابابیل کی کہانی :
ایک دوسری معروف روایت میں کہا جاتا ہے کہ حرم مکی کے یہ کبوتر دراصل ان ابابیل پرندوں کی نسل سے ہیں جنہوں نے یمن کے بادشاہ ابرہہ الاشرم کے حملے کو ناکام بنایا تھا۔
ابابیل پرندے سمندر کی جانب سے آئے تھے اور اپنے پنجوں میں پتھر اٹھا کر لائے تھے تاکہ کعبہ کی حفاظت کر سکیں۔ اس روایت نے ان پرندوں کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص مقام دیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان اور پرندوں کی علامت :
تیسری روایت کے مطابق ان پرندوں کی تاریخ حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان سے جڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے زمین کی خشکی کا پتہ لگانے کے لیے ایک پرندے کو بھیجا تھا، اور اسی واقعے کی نسبت سے یہ پرندے امن اور حفاظت کی علامت بن گئے۔ اس روایت نے ان پرندوں کو دنیا بھر میں امن کے نشان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
حرم مکی کے کبوتروں کی موجودہ اہمیت:
آج بھی یہ کبوتر مکہ مکرمہ کی فضاؤں میں آزادانہ پرواز کرتے ہیں اور زائرین کو ایک پرسکون منظر پیش کرتے ہیں۔
ان کی حفاظت اور ان کی موجودگی حرم مکی کے تقدس کی علامت ہے۔ زائرین اور مقامی لوگ ان پرندوں کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ان کی موجودگی کو رحمت سمجھتے ہیں۔
حرم مکی کے کبوتر محض پرندے نہیں، بلکہ اسلامی تاریخ، تقدس اور امن کی علامت ہیں۔ ان سے وابستہ مختلف روایات اور واقعات انہیں ایک خاص اہمیت دیت