برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں ملنے والے قدیم ترین قرآنی نسخے نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ نسخہ اب تک کے دستیاب قرآن پاک کے قدیم نسخوں میں سب سے قدیم مانا جا رہا ہے۔
تحقیقات کی تصدیق:
مذکورہ قرآنی نسخے پر مزید تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ نا صرف سب سے قدیم ہے بلکہ ممکنہ طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں لکھا گیا تھا۔
برمنگھم یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اس نسخے کی عمر 1370 سال یا اس سے بھی زیادہ کی بتائی گئی ہے۔
اسلامی اسکالرز کی رائے:
دبئی کے “محمد بن راشد آل مکتوم فاؤنڈیشن” کے اسلامی اسکالر جمال بن حویرب نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ یہ نسخہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تحریر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ اسلامی تحقیق میں انقلابی قدم ہے اور یہ موجودہ قرآنی نسخوں سے حرف بہ حرف ملتا ہے۔
جلد اور تحریر کی تحقیق:
قرآنی نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر تحریر کیا گیا ہے۔ کاربن ریڈیو ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ یہ کھال 568ء سے 645ء کے درمیان کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 571ء اور وفات 632ء میں ہوئی تھی۔ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کی کھال پر یہ نسخہ لکھا گیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا۔
پروفیسر ڈیوڈ ٹامس کا تبصرہ:
برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ٹامس کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بہت قریب لے جاتا ہے۔ حجازی رسم الخط میں لکھا گیا یہ قدیم نسخہ قرآنی شکوک و شبہات کو ختم کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ قرآن اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
کاتب کی شناخت:
پروفیسر ٹامس کے مطابق، امکان ہے کہ اس نسخے کا کاتب کوئی صحابی رسول ہو، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہو یا ان سے ملا ہو۔ اس دور میں قرآن مختلف مواد جیسے کہ کھال، چھال اور ہڈیوں پر لکھا گیا تھا۔
ممکنہ کتابت کا دور:
اس حوالے سے غالب امکان ہے کہ یہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لکھا گیا ہو۔ اگر ایسا نہیں تو دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ کتابت ہوئی ہوگی۔
مستشرقین کی رائے:
برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ٹامس کے مطابق، یہ نسخہ ممکنہ طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے درمیان کے 20 سال کے عرصے میں مرتب کیا گیا ہے۔
قدیم ترین نسخے کی اہمیت:
قرآن کریم کے قدیم ترین نسخے کی عمر کا سو فیصد تعین کرنا مشکل ہے، مگر امکان ہے کہ یہ نسخہ دور رسالت ﷺمیں بھی لکھا گیا ہو۔ اس کی تحریر ممکنہ طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوئی ہو گی۔
کاربن ڈیٹنگ کے نتائج:
برمنگھم میں ملنے والے صفحات کی تاریخ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے 568ء سے 645ء کے درمیان کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 632ء میںاس دنیا سے رخصت فرما گئے تھے، جس کے بعد یہ نسخہ لکھا گیا۔
قدیم نسخے کا تعلق:
برمنگھم یونیورسٹی کے محققین کے مطابق، یہ نسخہ ایک زمانے میں مصر میں واقع دنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاصؓ میں رکھا ہوا تھا۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ صفحات پیرس کی نیشنل لائبریری میں موجود قرآنی صفحات سے بھی مماثلت رکھتے ہیں۔
قرآنی نسخے کی حفاظت:
پیرس کی نیشنل لائبریری میں موجود صفحات انیسویں صدی میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران یورپ لائے گئے تھے۔ برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں موجود صفحات قرآن شریف کے ایک ہی نسخے کے ہیں۔
تاریخی دستاویزات:
پیرس کی لائبریری کے صفحات اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآنی نسخے سے متعلق ہیں۔ برمنگھم میں محفوظ کیے گئے صفحات ایک عراقی پادری کے ذریعے وہاں پہنچے تھے، جو مشرق وسطیٰ میں نوادرات اکٹھا کرتے تھے۔
پروفیسر ڈریچو کا کہنا ہے کہ برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآنی صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں، جو کہ قدیم اسلامی تاریخ میں ایک اہم دستاویز ہیں۔ ان صفحات کا مطالعہ قرآن کریم کی تاریخ اور اس کے قدیم نسخوں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتا ہے