پاکستان میں گھریلو تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے معاشرے میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ حالیہ واقعہ جھنگ کی ایک یونیورسٹی کی لیکچرار نمرہ ظفر کے ساتھ پیش آیا۔
جس میں ان پر ان کے شوہر کی جانب سے مبینہ تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔
اس ویڈیو میں نمرہ ظفر کو اپنے شوہر سے معافی مانگتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جو ان پر سختی سے تشدد کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل اور تنقید:
ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے اس واقعے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔
مختلف صارفین نے تشدد کرنے والے شوہر کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا، اور کئی افراد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا کہ ایسے واقعات کے خلاف فوری اقدامات کیے جائیں۔
صحافی سمیع ابراہیم نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے جھنگ پولیس اور آئی جی سے اس معاملے پر فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
فرحت شہزاد، ایک سوشل میڈیا صارف، نے لکھا کہ “ایک مرد جو اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے، اس کے ہاتھ توڑ دینے چاہئیں۔” تاہم انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ خواتین اکثر اس خوف میں مبتلا ہوتی ہیں کہ اگر شوہر کا سہارا نہ رہا تو وہ کہاں جائیں گی۔
جھنگ پولیس کا ردعمل اور قانونی کارروائی:
جھنگ پولیس نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس کیس کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ (ایس ایم یو) نے سوشل میڈیا پر اطلاع دی کہ انہیں اس معاملے میں جائیداد کے تنازعے کے حوالے سے شکایت موصول ہوئی، جس کے تحت نمرہ ظفر کے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق اس کیس کی تحقیقات تیزی سے جاری ہیں اور جلد ہی ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
طلبہ و طالبات کا احتجاج:
یونیورسٹی آف جھنگ کے طلبہ و طالبات نے بھی نمرہ ظفر کے حق میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے ڈی پی او آفس کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے تشدد کے اس واقعے کی مذمت کی اور نمرہ ظفر کے حق میں نعرہ بازی کی۔
احتجاج میں شریک طلبہ و طالبات نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر نمرہ ظفر کے حق میں اور گھریلو تشدد کے خلاف نعرے درج تھے۔
گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات کی ضرورت:
پاکستان میں گھریلو تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عوام اور حکام کو اس سنگین مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔
سماجی کارکنان اور ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گھریلو تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کو مزید سخت کیا جائے اور متاثرین کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
نمرہ ظفر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے ایک بار پھر معاشرے کو اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے معاشرتی اور قانونی سطح پر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ واقعہ گھریلو تشدد کے حوالے سے آگاہی بڑھانے اور معاشرے میں اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ایک اہم مثال بن چکا ہے۔ عوام کی جانب سے اس واقعے کے خلاف اٹھائی گئی آواز اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرہ اب ان معاملات پر خاموش نہیں رہے گا اور انصاف کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھے گا