تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہارکیا ہے۔
انہوں نےکہا کہ حکومت نے این آر او ٹو حاصل کر لیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ان کے خلاف چلنے والے توشہ خانہ کیس کا خاتمہ ہو گیا ہے، جبکہ القادر ٹرسٹ کیس بھی تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے۔
عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے اندرونی معاملات پر بھی روشنی ڈالی۔
انہوں نے علی امین گنڈاپور کے خلاف پارٹی میں موجود سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ پارٹی کے اندر علی امین کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم وہ پوری پارٹی کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ وقت اختلافات کا نہیں ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے علی امین گنڈاپورکے ساتھ مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو لوگ سازشیں کر رہے ہیں انہیں بعد میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے ملک میں موجود حکومتی کرپشن کے بارے میں بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ حکومت میں موجود افراد نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے قوانین میں ترامیم کروا لی ہیں، جس سے وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا اب مشکل ہو چکا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے واضح کیا کہ وہ ملک سے فرار نہیں ہوں گے اور اگر ضرورت پڑی تو ساری زندگی جیل میں گزارنے کو تیار ہیں۔
عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ بیانات پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوج غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔
سابق وزیر اعظم نے 9 مئی کے واقعات پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کا مقصد ان کی پارٹی کو ختم کرنا تھا اور اس روز کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سامنے لائی جائیں۔
انہوں نے جنرل فیض حمید کے ٹرائل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس معاملے میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو بھی شامل تفتیش کیا جائے، کیونکہ تمام معاملات کے پیچھے انہی کا ہاتھ تھا۔
عمران خان نے زور دیا کہ ملک کو موجودہ بحرانی حالات سے نکالنے کے لیے غیر جانبداری اور انصاف کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جیسے ہی اڈیالہ جیل سے رہا ہوا تو سب سے پہلا کام چیئرمین نیب کی گرفتاری ہوگا۔ میں وعدہ معاف گواہ اور قومی احتساب بیورو( نیب )کے تفتیشی افسر پرمقدمات درج کراؤں گا