قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر شعیب ملک نے مستقبل میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلنے میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ایک انٹرویو میں شعیب ملک نے کہا کہ انہوں نے قومی ٹیم کی نمائندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
شعیب ملک نے بتایا کہ وہ اپنی موجودہ کرکٹ سرگرمیوں سے بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا، “میں نے دو فارمیٹس سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ اب صرف ایک فارمیٹ باقی رہ گیا ہے، جس میں بھی میری قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ:
جب شعیب ملک سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ان کی انٹرنیشنل کرکٹ سے مکمل ریٹائرمنٹ ہے تو انہوں نے جواب دیا، “جی ہاں، میری اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایک، دو انٹرویوز میں کہہ چکا ہوں کہ جب میں ریٹائرمنٹ لوں گا تو وہ ہر قسم کی کرکٹ سے ہوگی۔”
پاکستانی کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں:
شعیب ملک نے پاکستانی کرکٹ ٹیم میں کسی بھی قسم کی سرجری یا بڑی تبدیلیوں کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “سرجری تو تب ہونی چاہیے جب آپ کے پاس بہت کچھ موجود ہو۔ ہمارے پاس جو بہترین پلیئرز ہیں، انہیں ہی برقرار رکھنا چاہیے اور ان میں کیا تبدیلی کریں گے؟” انہوں نے مزید کہا کہ “دو، تین افراد سے ذمہ داری واپس لینا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب آپ کسی کو لے کر آتے ہیں تو اسے پورا وقت ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔”
قیادت میں تبدیلی:
شعیب ملک نے مشورہ دیا کہ قومی ٹیم کی قیادت میں تبدیلی کی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وائٹ بال میں قیادت فخرزمان کو سونپنی چاہیے جبکہ بابر اعظم کو بطور کھلاڑی قومی ٹیم کی نمائندگی جاری رکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ “چیمپئنز ٹرافی کے لیے بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان ضرور آنا چاہیے، اس سے کرکٹ کے تعلقات بہتر ہوں گے۔”
غیرملکی لیگز کے این او سی:
شعیب ملک نے سینئر کھلاڑیوں کو غیرملکی لیگز میں شرکت کے لیے این او سی جاری نہ کرنے کے فیصلے پر بھی اپنی رائے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ ملک کی ترجیح پہلے ہونی چاہیے۔ البتہ، پلیئرز کا مالی نقصان بھی نہیں ہونا چاہیے۔”
کوچنگ کے حوالے سے مشورے:
شعیب ملک نے کوچنگ کے حوالے سے بھی اپنی رائے دی اور کہا کہ “گیری کرسٹن کا وائٹ بال ہیڈ کوچ اور جیسن گلیپسی کا ٹیسٹ میں ذمہ داری سنبھالنا پاکستانی کرکٹ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ “جسے بھی کسی پوسٹ پر لایا جائے، اسے طویل عرصے تک چانس ضرور دینا چاہیے۔ اس حکمت عملی کو اپنا کر ہی مثبت نتائج مل سکتے ہیں۔”
شعیب ملک نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ ان کی قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنے میں مزید دلچسپی نہیں ہے اور انہوں نے اپنی باقی کرکٹ لیگوں میں کھیلنے تک محدود کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم میں مستقل اور مستحکم تبدیلیاں ہی کامیابی کی ضمانت ہیں اور سینئر کھلاڑیوں کو بھی ملک کی ترجیح دینی چاہیے