باغوں کا شہر کہلانے والا لاہور ہر سال کی طرح اس بار بھی شدید گردوغبار (اسموگ) کا شکار ہے۔ اس کی فضا میں کچھ جلنے کی بو آ رہی ہے۔
اگر آپ ماسک نہیں پہنتے تو آپ فوری طور پر آلودہ اور تلخ ہوا میں سانس لیں گے۔
لاہور کے شہروں کو ان دنوں آنکھوںمیں جلن،گلے کی خراش اور نزلہ زکام جیسی بیماریاں لاحق ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ صورتحال ان بچوں اور بوڑھوں کے لیے اور بھی خطرناک ہے جنہیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہسپتالوں میں ان امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔
لاہور شہر اور اس کی 13 ملین آبادی ایک ہفتے سے گھٹن جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔
رواں ماہ خراب موسم کی سطح 1000 ڈگری سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ 300 سے زائد درجہ حرارت کو صحت کے لیے خطرناک قرار دیا جا تا ہے۔
پاکستانی حکام اس بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں دھویں اور گردوغبار کی صورتحال اس سال بہت زیادہ ہے۔
یہاں اسکول بند ہیں، لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ گھر سے کام کریں اور محفوظ مقامات پر رہیں۔
پرہجوم جگہوں پر موٹر سائیکلوں، رکشوں اور بھاری گاڑیوں کے چلنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جسے ’’گرین پابندی‘‘ کہا گیا ہے۔
ہفتے کے اختتام پر لاہور ہائی کورٹ نے ہر روز رات آٹھ بجے کے بعد تمام دکانیں مکمل طور پر بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ پارکس اور چڑیا گھر بھی 17 نومبر تک بند ہیں۔
ناسا کےکے مطابق، اس شہر میں، “عام طور پر نومبر کے آخر اور دسمبر میں فضائی آلودگی کی سطح بڑھ جاتی ہے۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ “یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فضائی آلودگی کے بدترین دن ابھی باقی ہوں۔”
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پھیلے دھوئیں اور گردوغبار کو ہوا سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی سیٹلائٹ تصاویر میں بھارت کے دارالحکومت دہلی اور پاکستان کے شہر لاہور کے درمیانی علاقے میں دھواں اور مٹی دیکھی جا سکتی ہے۔
چھ ہفتے قبل اسی علاقے کی تصویر میں آسمان صاف دکھائی دے رہا ہے اور چند آگ دکھائی دے رہی ہیں۔
اسموگ کی ایک بڑی وجہ اگلی فصل کے لیے کھیتوں کو صاف کرنے اور تیار کرنے کے فوری طریقے کے طور پر پاکستان اور ہندوستان دونوں میں فصل کی کٹائی کے بعد کسانوں کی طرف سے لگائی جانے والی آگ ہے۔
ناسا کے اندازے کے مطابق اس سال 15,500 سے 18,500 آگ لگائی جائے گی جو کہ پچھلے سالوں سے زیادہ ہے۔
پاکستان کے ماحولیاتی تحفظ کے حکام کے مطابق لاہور کا تقریباً 40 فیصد دھواں بھارت سے آتا ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، بھارتی حکومت نے اس سال ان کسانوں پر جرمانہ دوگنا کر دیا ہے جو اپنی بھوڑی جلاتے ہیں۔
لیکن لاکھوں موٹر سائیکلوں اور کاروں کے دھویں کی وجہ سے لاہور کی زیادہ تر ہوا خراب ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ نے گاڑیوں میں اضافے کو اسموگ کی بڑی وجہ قرار دیا۔
اسی طرح شہر کے مضافات میں متعدد صنعتیں، جیسے اینٹوں کے بھٹے جو کوئلہ جلاتے ہیں، فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
سال کے آخر میں یہ تمام چیزیں سرد موسم کے ساتھ مل کر دھواں پیدا کرتی ہیں جو کہ اب پورے شہر میں پھیل رہی ہے اور لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ آلودہ ہوا کئی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ امریکی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق 50 ڈگری سے کم ہوا اچھی اور 300 سے زیادہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان کے ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کے بانی عابد عمر، جو ملک میں 143 ایئر کوالٹی مانیٹر سے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ نومبر کے مہینے میں ہوا کا معیار بہت خراب ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لاہور کے بعض مقامات پر فضائی آلودگی 1000 ڈگری سے تجاوز کر گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمعرات کو کہیں کہیں 1917 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔
اعدادوشمار کے مطابق منگل تک 900 افراد کو سانس کی تکلیف کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
بہت سے لوگ سانس کی تکلیف، گلے میں خراش اور کھانسی کا شکار ہیں۔سانس کی بیماریوں کی شکایت کرنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ موسم سرما کے آتے ہی اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
حکومت کو امید ہے کہ قلیل مدتی اصلاحات کا اب کچھ اثر پڑے گا، لیکن طویل مدتی حل جیسے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے میں وقت لگے گا۔
اسی دوران پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کو ’کلائمیٹ ڈپلومیسی‘ میں شرکت کے لیے مدعو کرنا چاہتی ہیں کیونکہ، ان کے بقول اس سے دونوں ممالک متاثر ہوتے ہیں، تاہم دہلی نے کہا کہ اس نے ابھی تک پاکستان سے اس بارے میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔
لیکن پاکستان کے ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کے بانی عابد عمر کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی کوئی موسمی نہیں بلکہ ایک مسلسل مسئلہ ہے۔لاہور کی ہوا دہلی کی نسبت زیادہ آلودہ ہے۔
“یہ صورت حال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے اس سال موسم 25 فیصد زیادہ خراب ہوا ہے۔
ضروری ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کی حکومتوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں۔ لیکن بھارت اور پاکستان کی موجودہ پالیسیاں فضائی آلودگی کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔