چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں مبینہ ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور سے ویڈیوز کے وائرل ہونے پر سخت سوالات کیے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ پولیس نے ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے اور کیا کسی متعلقہ اتھارٹی سے بروقت رابطہ کیا گیا تھا؟
آئی جی پنجاب کا مؤقف: پی ٹی اے سے رابطے کی وضاحت
آئی جی پنجاب نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے رابطہ کیا گیا تھا۔ تاہم چیف جسٹس عالیہ نیلم نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ یہ اقدامات بہت تاخیر سے کیے گئے۔ ویڈیوز 13 اور 14 اکتوبر کو وائرل ہوئیں لیکن پولیس کی جانب سے بروقت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہو چکا تھا۔
ویڈیوز کے وائرل ہونے کی روک تھام: آئی جی کا موقف
آئی جی پنجاب نے مزید وضاحت کی کہ ویڈیوز کا ڈیٹا وائرل ہونے سے روکنا آسان نہیں تھا کیونکہ 700 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس سائبر کرائم سے متعلقہ مسائل کو دیکھنے کے لیے وسائل اور اختیارات محدود ہیں، اور کسی ایک اکاؤنٹ سے ویڈیو کو ہٹانے کے باوجود دوسرے اکاؤنٹس سے ری پوسٹ ہو جاتی ہے۔
چیف جسٹس کا مؤقف: پولیس کی ناکامی اور تاخیر پر تنقید
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پولیس کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو تاخیر کے بجائے بروقت کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ارادہ ہوتا تو ساری مشکلات کے باوجود ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا جا سکتا تھا، اور اس ناکامی کا الزام پولیس کے سر ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پولیس کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات بہت تاخیر سے شروع کیے گئے۔
سوشل میڈیا پر وائرل مواد اور حکومتی اقدامات:
چیف جسٹس نے عدالت میں اس بات پر زور دیا کہ اگر متعلقہ حکام بروقت کارروائی کرتے تو سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور غیر تصدیق شدہ مواد کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا تھا۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق سے استفسار کیا کہ اگر مظاہرین میں سے کسی طالبہ کو نقصان پہنچتا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی؟
انسٹاگرام پوسٹ اور واقعے کا آغاز:
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کے بعد کالج کے طلبہ و طالبات مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ اسی دن متعلقہ پولیس افسران نے کالج پہنچ کر تحقیقات کا آغاز کیا۔
تحقیقات کی صورتحال اور سوشل میڈیا پر کنٹرول کا فقدان:
ایڈووکیٹ جنرل نے مزید وضاحت کی کہ واٹس ایپ گروپس اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر طلبہ کے ذاتی روابط کی وجہ سے مواد تیزی سے پھیلتا ہے، جس پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر طلبہ کے پاس کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں تھے، لیکن انہوں نے سوشل میڈیا پر پھیلی افواہوں پر یقین کر لیا تھا۔
وزیر اعلیٰ کی کمیٹی اور تحقیقات کا آغاز:
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ جب مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی تو وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ معاملے کی تحقیقات کی جا سکیں۔ کمیٹی نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے تمام دعوؤں کی جانچ پڑتال کی، لیکن ابھی تک زیادتی کا کوئی شکار سامنے نہیں آیا۔
طالبہ کی طبی حالت اور افواہوں کا پھیلاؤ:
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ جس طالبہ کے حوالے سے زیادتی کی خبریں گردش کر رہی تھیں، وہ 2 اکتوبر کو لاہور جنرل ہسپتال میں علاج کے لیے گئی تھی اور بعد ازاں 4 اکتوبر کو ایک نجی ہسپتال منتقل کی گئی، جہاں اسے آئی سی یو میں رکھا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلائی گئی کہ یہی وہ طالبہ ہے جو مبینہ زیادتی کا شکار ہوئی تھی، حالانکہ اس کی حالت حادثاتی چوٹوں کی وجہ سے تھی۔
فیک نیوز کے حوالے سے عدالتی کارروائی:
عدالت میں چیف جسٹس عالیہ نیلم نے فیک نیوز اور سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ مواد کے حوالے سے سخت کارروائی کا عندیہ دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اس مسئلے پر فل بنچ تشکیل دیا جائے گا جو ان کیسز کی سماعت کرے گا اور اس حوالے سے جامع تحقیقات کی جائیں گی۔
فل بنچ اور ڈی جی ایف آئی اے کی طلبی:
چیف جسٹس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور اس کیس کے تمام پہلوؤں کی تحقیقات کا حکم دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدلیہ ان معاملات کو نظرانداز نہیں کرے گی اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
کیس کا پس منظر: سوشل میڈیا پر زیادتی کی خبر پھیلنے کا آغاز
14 اکتوبر کو لاہور کے ایک نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی معلومات کی بنیاد پر طلبہ نے شدید احتجاج کیا، جس کے دوران کالج میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہو گئے۔
پولیس کی کارروائی اور گرفتاری:
پولیس نے طلبہ کی نشاندہی پر کالج کے سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا، تاہم متاثرہ طالبہ یا اس کے اہلخانہ کی جانب سے کوئی درخواست جمع نہ کرائے جانے کے باعث واقعے کی ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔ ایک وڈیو بیان میں اے ایس پی شہر بانو نقوی نے طالبہ کے مبینہ والد اور چچا کے ساتھ مل کر اس افواہ کی تردید کی کہ ان کی بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔
ویڈیو بیان اور وضاحت:
ویڈیو بیان میں متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ نے کہا کہ ان کی بچی سیڑھیوں سے گری تھی جس کے نتیجے میں اس کی کمر پر چوٹ آئی اور اسے آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تمام خبریں بے بنیاد ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں