موبائل فون کے استعمال اور برین کینسر کے درمیان ممکنہ تعلق پر کئی سالوں سے بحث جاری ہے، تاہم حالیہ عالمی تحقیق نے اس معاملے پر حتمی وضاحت پیش کی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی سرپرستی میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موبائل فون کا استعمال دماغی کینسر کا سبب نہیں بنتا۔
63 تحقیقی مطالعات کا جائزہ:
اس تحقیق میں 63 مختلف مطالعات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، جو 1994 ء سے 2022 ء کے درمیان شائع ہوئے تھے۔ آسٹریلین ریڈی ایشن پروٹیکشن اینڈ نیوکلیئر سیفٹی ایجنسی کی سربراہی میں 10 مختلف ممالک کے محققین نے یہ مطالعہ کیا۔
ریسرچ ٹیم نے 300 ہرٹز سے 300 گیگا ہرٹز کی ریڈیو فریکوئنسی رینجز پر تحقیق کی، جو موبائل فونز، وائی فائی، ریڈار، اور دیگر مواصلاتی آلات میں استعمال ہوتی ہیں۔
موبائل فون اور دماغی کینسر کا کوئی تعلق نہیں:
پروفیسر مارک ایلوڈ، جو یونیورسٹی آف آکلینڈ کے کینسر کی وبائی امراض کے اعزازی پروفیسر ہیں، نے کہا کہ ان کے مطالعے میں دماغ، پٹیوٹری غدود، اور تھوک کے غدود کے کینسر کے کیسز کو جانچا گیا، لیکن موبائل فون کے استعمال اور ان بیماریوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا گیا۔
اس تحقیق میں 10 سال تک موبائل فون استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا بھی شامل تھا، مگر اس کے باوجود کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
بچوں میں بھی کینسر کا کوئی خطرہ نہیں:
تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ ریڈیو، ٹی وی ٹرانسمیٹرز، یا موبائل فون بیس اسٹیشنز سے نکلنے والی شعاعیں بچوں میں دماغی کینسر یا لیوکیمیا کا باعث نہیں بنتیں۔
5G نیٹ ورک پر بھی کوئی خطرہ نہیں:
پروفیسر مارک ایلوڈ نے 5G نیٹ ورک پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی، لیکن ریڈار کے مطالعے کے دوران کوئی ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جن سے 5G نیٹ ورک کو دماغی کینسر سے منسلک کیا جا سکے۔
تحقیق کے نتائج کی عالمی ماہرین سے پذیرائی:
اسپین سے تعلق رکھنے والے پروفیسر البرٹو نجیرا، جو ریڈیو فریکوئنسی اور صحت کے ماہر ہیں، نے اس تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت معیاری اور قابل اعتماد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ موبائل فونز یا ٹیلی فون انٹیناز سے نکلنے والی برقی مقناطیسی فیلڈز کینسر کا باعث نہیں بنتیں۔
مستقبل میں مزید تحقیق کی ضرورت:
اگرچہ تحقیق میں موبائل فون کے استعمال اور کینسر کے درمیان کوئی براہ راست تعلق ثابت نہیں ہوا، تاہم محققین نے کہا ہے کہ کینسر کی دیگر اقسام پر الگ سے مزید تحقیق جاری ہے