زمین پر سب سے قدیم سڑک، جو مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کو ملاتی ہے، تقریباً 409 کلومیٹر طویل ہے اور 70 سے زائد مقامات پر قدیم نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس شاہراہ کو “انبیا کا راستہ” کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سڑک اللہ کے پیغمبروں کی جانب سے بارہا سفر کی گئی ہے۔
العریبیہ اردو میں شائع رپورٹ کے مطابق تقریباً پانچ ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس راستے کا آغاز کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسی راستے سے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی۔
نبی اکرم ﷺ اور انبیا ء کا سفر:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں بھی اس راستے کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیص کے قریب وادی الازرق سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ کون سی وادی ہے؟” صحابہ نے جواب دیا: “یہ وادی الازرق ہے”۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہوئے ایک ثنیہ سے اتر رہے ہیں”۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرشی کے ٹیلے کے پاس آئے اور اسی طرح پوچھا: “یہ کونسا ثنیہ ہے؟” لوگوں نے کہا: “یہ ثنیہ ہرشی ہے”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “گویا میں یونس بن متی کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ سرخ جھریوں والی اونٹنی پر سوار، اونی چادر پہنے ہوئے ہیں اور تلبیہ پڑھ رہے ہیں۔ ان کی اونٹنی کے منہ کا کپڑا ریشے سے بنا ہوا ہے”۔
انبیا ءکے راستے کی تاریخ:
انبیا ءکا راستہ صرف انبیاء کرام کی گزرگاہ نہیں رہا بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حج کا اختیار دینے کے بعد لاکھوں لوگوں نے اس راستے کو اپنایا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ستر انبیاء کرام حج کرتے ہوئے اونی کپڑے پہنے فج الروحا کے راستے پر چلے”۔
مراحل اور منزلیں:
قدیم مقامی افراد نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو ملانے والی اس سڑک کے مراحل اور منزلوں کی توثیق کی ہے۔ یہ سڑک 10 منزلوں پر مشتمل ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر ایک دن کا ہوتا ہے، چاہے وہ جانور پر سوار ہو یا پیدل چلنے والا، اسے اس نبوی راستے پر سفر میں دس دن لگتے ہیں۔
اس شاہراہ پر آنے والے مقامات اب بھی اپنے پرانے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ مدینہ کا پہلا مرحلہ ذوالحلیفہ ہے، جو مدینہ منورہ کے لوگوں کے لیے ایک مشہور میقات ہے۔ دیگر مقامات میں الحفیرہ، ملل اور السیالہ شامل ہیں۔ دوسرا مرحلہ السیالہ سے الروحاء اور پھر الرویثہ تک ہے، جو تقریباً 35 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ تیسرا مرحلہ الرویثہ سے شروع ہو کر العرج تک ہے۔ چوتھا مرحلہ العرج سے سقیا بنی غفار تک ہے۔ پانچواں مرحلہ العبواء تک اور چھٹا مرحلہ العبواء سے الجحفہ تک ہے۔ اس کے بعد مکہ کے قریبی مراحل شروع ہوتے ہیں جن میں قدید، عسفان اور بطن مر شامل ہیں۔ آخر میں دسواں مرحلہ بطن مر سے مکہ مکرمہ تک ہے، جس سے اس سفر میں کل دس دن لگتے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ القاضی کی تحقیق:
ڈاکٹر عبداللہ القاضی، جو انبیاء کے راستوں اور ہجرت کے راستوں کا سراغ لگانے میں سب سے مشہور معاصرین میں سے ایک ہیں، نے اس شاہراہ کے حوالے سے سنت نبوی سے متعلق کتابوں اور عربی شاعری میں مذکور ستر سے زائد مقامات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے دو دہائیوں کی محنت سے اس شاہراہ پر موجود مقامات کا کھوج لگایا اور اس حوالے سے کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’درب الانبیاء‘‘ ہے۔ ’’درب الانبیاء‘‘ کا مطلب ’’انبیا کا راستہ‘‘ ہے۔
سفر کی مشکلات اور اہمیت:
اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کے لیے پانی اور آرام کی جگہیں سب سے اہم ستون تھے۔ قدیم مسافر سڑکوں پر چلتے ہوئے ان چیزوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اس راستے پر واقع مقامات آج بھی آبادی سے بھرے ہوئے ہیں اور وہاں پانی دستیاب ہے، جو قدیم سفر کی مشکلات کو آسان بناتا ہے۔
مکہ مکرمہ کی طرف جانے والا “انبیا کا راستہ” ایک عظیم الشان تاریخی اور روحانی سفر کی کہانی ہے۔ اس قدیم شاہراہ نے انبیاء کرام اور لاکھوں حاجیوں کو مکہ مکرمہ تک پہنچایا۔ اس راستے کی تاریخی اور مذہبی اہمیت آج بھی برقرار ہے اور اس کی تحقیق اور مطالعہ ہمیں ہمارے ماضی سے جوڑتا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ القاضی کی تحقیق نے اس شاہراہ کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ کیا ہے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ انبیا کے اس راستے کی کہانی نہ صرف ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہے بلکہ ہماری تاریخ اور ثقافت کا حصہ بھی ہے