خانہ کعبہ سے صرف 20 میٹر دور واقع زمزم کا کنواں کرہ ارض پر پانی کا سب سے پرانا چشمہ ہے جس کی عمر پانچ ہزار سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔
یہ چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں سے پھوٹا تھا۔
چشمہ کی دوامیت:
تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ عام چشمے ساٹھ ستر سال سے زیادہ عرصہ جاری نہیں رہتے، مگر زمزم کا چشمہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے مسلسل جاری ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا تھا۔
کنوئیں کی گہرائی اور پانی کی مقدار:
زمزم کا کنواں تیس میٹر گہرا ہے اور اس میں پانی کی سطح 11 سے 18.5 لیٹر کے درمیان رہتی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑنے جب اللہ کے پہلے گھر کی بنیاد رکھی تو یہ چشمہ وہاں موجود تھا۔
زمزم کا آغاز:
حرمین الشریفین کے امور کے ماہر محی الدین الہاشمی کے مطابق، زمزم کا چشمہ اس وقت پھوٹا جب حضرت ابراہیم ؑنے اپنی زوجہ ہاجرہ ؑاور بیٹے اسماعیلؑ کو مکہ کی چٹیل وادی میں چھوڑا۔
حضرت ہاجرہ ؑنے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش شروع کی تو حضرت جبریل ؑنے اسماعیلؑ کی ایڑیوں کے نیچے سے پانی کا چشمہ جاری کیا۔
زمزم کے بارے میں احادیث:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث میں زمزم کا ذکر آیا ہے۔ ایک حدیثﷺ میں آپ نے فرمایا کہ اگر حضرت ہاجرہؑ پانی کی تلاش میں اور دیر تک صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتی رہتیں تو بڑا چشمہ نکل آتا یا معین دریا بہہ پڑتا۔
مکہ مکرمہ کی ترقی:
حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی آمد کے بعد مکہ مکرمہ برکتوں والی سرزمین بن گیا اور قبائل کی بڑی تعداد یہاں منتقل ہونا شروع ہوگئی۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کا پہلا گھر تعمیر کیا تو اس کی اہمیت اور بڑھ گئی اور مکہ مکرمہ ایک تجارتی مرکز بن گیا۔
زمزم کا دوبارہ ظہور:
مرور وقت کے ساتھ بئر زمزم کا پانی خشک ہوگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب نے خواب میں کنوئیں کو دوبارہ کھودنے کا حکم پایا اور انہوں نے دوبارہ کھود کر پانی نکالا۔ یہ چشمہ آج تک جاری ہے اور حجاج کرام و معتمرین اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
پانی کے ذخائر:
محی الدین الہاشمی نے بتایا کہ بئر زمزم میں پانی تین مقامات، حجر اسود، جبل ابو قیس اور المکبریہ کی سمتوں سے آتا ہے۔
کنوئیں کی حفاظت:
زمزم کنوئیں کے ارد گرد ایک عمارت بنائی گئی ہے اور کنوئیں کے اطراف میں جالی بھی لگائی گئی ہے۔ کنوئیں کا ایک پرانا ڈول، جس پر 1299ھ کی تاریخ تحریر ہے، حرمین شریفین عجائب گھر میں موجود ہے۔
توسیعی منصوبے:
1377ھ میں مطاف کی توسیع کے لیے زمزم کی عمارت مسمار کر دی گئی تھی اور اس کی جگہ صحن مطاف میں راستہ بنایا گیا تھا۔ حالیہ توسیع میں یہ راستہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔
کنوئیں کی صفائی:
1400ھ میں شاہ خالد مرحوم کے حکم پر زمزم کنوئیں کو صاف کیا گیا تھا۔ 2010ء میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے زمزم کے پانی کو صاف اور محفوظ کرنے کے لیے 700 ملین ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے کے تحت مسجد حرام سے ساڑھے چار کلومیٹر دور زمزم کارخانہ قائم کیا گیا۔
زمزم کا ذخیرہ:
زمزم کارخانے میں روزانہ دو لاکھ گیلن زمزم پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جو حرم مکی میں استعمال ہوتا ہے۔ پانی کو ٹینکروں کے ذریعے مدینہ منورہ بھی بھیجا جاتا ہے اور مسجد حرام میں زمزم پانی کو ٹھنڈا رکھنے کا معقول انتظام ہے