پاکستان میں گذشتہ تین سالوں کے دوران 156 سرکاری افسران اور ملازمین نے ایک ہی وقت میں پنشن کے ساتھ تنخواہ بھی وصول کی ہے۔
اس پر عوامی حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ افسران ایک ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری: ایک عام عمل
سال 2021ء سے 2023 ءکے دوران، 127 سرکاری افسران نے وفاقی اداروں سے پنشن کے ساتھ تنخواہ وصول کی۔
ان میں چیئرمین، ڈائریکٹر جنرلز (ڈی جیز)، سیکریٹریز، ڈائریکٹرز اور دیگر اعلیٰ افسران شامل ہیں۔
گریڈ 22 کے 30 افسران، جن میں ڈی جی ٹیکسٹائل، چیئرمین فیڈرل لینڈ کمیشن، اور سیکریٹری جنرل قومی اسمبلی شامل ہیں، نے مختلف اداروں سے یہ فوائد حاصل کیے۔
مختلف گریڈز کے افسران کی تفصیلات:
تنخواہ اور پنشن ایک ساتھ لینے والے افسران میں گریڈ 21 کے 30 افسران بھی شامل ہیں، جن میں 3 ڈی جی، 3 سیکریٹری اور دیگر مشیر، ممبران اور قانونی عملہ شامل ہے۔
اسی طرح، گریڈ 20 کے 12 افسران، جن میں 2 ڈی جی اور 10 دیگر افسران شامل ہیں، نے بھی یہی فوائد حاصل کیے ہیں۔ گریڈ 19 کے 7، گریڈ 18 کے 6، اور گریڈ 17 کے 10 افسران نے بھی پنشن کے ساتھ تنخواہ وصول کی ہے۔
گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی شمولیت:
یہاں تک کہ گریڈ ایک سے سولہ تک کے 16 ملازمین نے بھی پنشن کے ساتھ تنخواہ لی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جسے حکومت اور متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ صورتحال سرکاری مالیاتی نظم و ضبط پر سوال اٹھاتی ہے اور اس کے اثرات عوامی خدمات کی فراہمی پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
حکومتی اقدامات کی ضرورت:
اس صورتحال کے پیش نظر، یہ ضروری ہے کہ حکومت فوری اقدامات کرے تاکہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں کی ادائیگی میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو یہ عوامی اعتماد کو متاثر کر سکتا ہے اور مالیاتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے