سپریم کورٹ نے پی پی 133 ننکانہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانا محمد ارشد کو کامیاب قرار دیتے ہوئے انہیں بحال کر دیا۔
الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کے بعد 9 اپریل کو مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا ارشد کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن کیا۔ الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کے بعد سنی اتحاد کونسل کے امیدوار رانا عاطف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کو کامیاب قرار دیا۔ دوبارہ گنتی کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدوار کو 2400 کی برتری حاصل ہوئی۔
یاد رہے گزشتہ روز سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 154، این اے 81، این اے 79 اور این اے 133 پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو کامیاب قرار دیا ۔ عدالت نے لیگی امیدواروں کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے ممبران احترام کے مستحق ہیں، ہائیکورٹ کے کچھ ججز الیکشن کمیشن کے احترام سے انکاری ہیں، تمام ججز کو الیکشن کمیشن کا احترام کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا جبکہ جسٹس عقیل عباسی نے فیصلے سے اختلاف کیا جس میں کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے مختلف فیصلے کا حوالہ دیا۔ الیکشن کمیشن نے متعدد مقدمات میں انتخابی نتائج حتمی ہونے پر دوبارہ گنتی کی درخواستیں خارج کیں۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کے ان مثالوں سے سپریم کورٹ میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، آئین کے مطابق انتخابی تنازعات پر الیکشن ٹربیونل سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے، انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے اپنے نوٹ میں کہا کہ انتخابی نتائج سے متاثرہ فریقن الیکشن ٹربیونل سے رجوع کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا انتخابی تنازعات پر دیا گیا حکم دائرہ اختیار سے تجاوز ہے، لاہور ہائی کورٹ نے انتخابی تنازع پر نہیں الیکشن کمیشن کے اختیارات پر فیصلہ دیا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کسی بھی غیرقانونی اقدام کا جائزہ لینے کیلئے با اختیار ہے، ریٹرننگ افسر کا کام محض ڈاکخانہ نہیں ہوتا، دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنا ریٹرننگ افسر کا اختیار اور استحقاق ہے، دربارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ختم ہونے سے انتخابی عمل متنازع ہوگا۔
نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ریٹرننگ افسران اور ہائی کورٹ نے انتخابی تنازع پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران انتخابی تنازع پر فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں آئینی و قانونی سقم نہیں کہ مداخلت کی جائے۔