سوشل میڈیا پر کارساز حادثے سے متعلق ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک نوجوان لڑکا بہادری کے ساتھ پولیس اور رینجرز کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔
ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ نوجوان لڑکا پولیس اور رینجرز اہلکاروں سے بحث کررہا ہے اور کارساز روڈ حادثے کی مرکزی ملزم نتاشا دانش اقبال کو مناسب طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر تحویل میں لینے سے انکار کر رہا ہے۔
ویڈیو میں لڑکے کو یہ مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ متوفی کے اہل خانہ کو جائے وقوعہ پر بلایا جائے اور لاشوں کو ہسپتال پہنچایا جائے۔
پہلے، متاثرین کے اہل خانہ کو کال کریں، پھر ہم آپ کو [قانون نافذ کرنے والے] اسے پولیس اسٹیشن لے جانے کی اجازت دیں گے،” لڑکے کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
تاہم ابھی تک نوجوان لڑکے کی شناخت معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ کارساز حادثہ 19 اگست کو پیش آیا جب مشتبہ شخص اپنی تیز رفتار کار سے بے قابو ہو کر متعدد افراد سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔
ریسکیو حکام کے مطابق گاڑی الٹ گئی اور چار موٹر سائیکلوں اور دو کاروں کو نقصان پہنچا۔ جاں بحق ہونے والوں میں عمران نامی باپ اور اس کی بیٹی آمنہ شامل ہیں جو بیٹی کا کام کی شفٹ ختم ہونے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔
ملزم کو پولیس نے جائے وقوعہ سے گرفتار کیا تھا اور اسے طبی معائنہ کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر بھیج دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق حادثے کے وقت خاتون نشے کی حالت میں تھی۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ملزمہ مبینہ طور پر ممتاز گل احمد خاندان کا فرد ہے۔
ملزمہ کے وکیل عامر منصور نے بتایا کہ ان کا مؤکل ایک نفسیاتی مریض تھا اور 5 سال سے اس کی حالت کا علاج چل رہا تھا۔ نتاشا کے وکیل نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو اس واقعے کی کوئی یاد نہیں تھی اور وہ صحیح دماغی صورتحال میں نہیں تھی۔
جواب میں، نامہ نگاروں نے پوچھا کہ اہل خانہ نے ملزمہ کو اتنی شدید ذہنی حالت میں گاڑی چلانے کی اجازت کیوں دی؟
وکیل نے دعویٰ کیا کہ خاندان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ نتاشا نے گاڑی لے لی ہے، کیونکہ “انہوں نے اس کی ذہنی حالت کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کی تھیں”۔
تاہم، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ماہر نفسیات نے انہیں ذہنی طور پر تندرست قرار دیا تھا۔ ایک روز قبل، بندرگاہی شہر کی سٹی کورٹ نے نتاشا کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا